mera sodagar mera dildar season 2






mera sodagar mera dildar season 2, mera sodagar mera dildar season 1, mera sodagar mera dildar season 1 novel, Urdu novel bank, urdu Novels, novel's, 




Mera Sodagar Mera Dildar Season 2 Episode 1 





Season 2
میرا_سوداگر_میرا_دلدار

رائٹر_ایمن_رضا 

قسط 1
........................... 


بیپ  بیپ  بیپ"

اس  کمرے  میں  موجود  مریض  کی  ہارٹ  بیٹ  تیز  ہونا  شروع  ہوئی  تو  ڈاکٹرز  میں  افرا

 تفری  مچ   گئی  تھی۔۔۔ "فوراً  سر  کو  کال  کرو  مریضہ  کو  ہوش  آ رہا  ہے"

"آہہہ یہ میں کہاں ہوں کونسی جگہ ہے یہ کون ہو تم لوگ"

اس لڑکی نے سر تھامتے ہوئے کہا۔۔۔
سر میں ٹیسوں کی شدید لہر اٹھ رہی تھی۔۔

"مجھے مجھے میرے بچے کے پاس جانا ہے کہاں ہے وہ میرا بچہ"

یارم کا یاد آتے ہی وہ فوراً اپنے سٹریچر سے اٹھتی باہر کو بھاگنے لگی
 مگر نرس نے دونوں اطراف سے اسے. پکڑ لیا۔۔۔

چھوڑو مجھے جانے دو میرا بچہ میرا  انتظار کر رہا ہو گا"
روتے ہوئے اسکا گلا بیٹھ گیا تھا۔۔۔
"یلدرم فوراً اندر آیا تھا"۔۔۔
"عفاف اٹھو یہ کیا کر رہی ہو تم "
یلدرم نے اسے اٹھا کر اوپر بٹھایا۔۔۔
"یلدرم میرا بچہ کہاں ہے میرا بچہ 
پلیز مجھے میرا بچہ لا دو سردار
 مجھے نہیں دے رہا میرا بچہ۔۔۔

تم نے دیکھا تھا نہ کل میرے پاس آنے کے
 لیے کیسے رو رہا تھا وہ مگر سردار بیچ
 میں آ گیا"
اسنے روتے ہوئے کہا تو یلدرم کو شدید جھٹکا لگا۔۔۔۔
"عفاف یہ کل کی بات نہیں "
یلدرم نے اٹک اٹک کر کہا۔۔۔
اسکے اس طرح کہنے پر اسے کچھ غلط ہونے اندیشہ ہوا۔۔۔
"کیا کیا مطلب"
"عفاف کیا تم نہیں جانتی کہ تم چار سال سے کوما میں تھی"

اسکی بات تھی یا خنجر جو اسکے دل کو لہولہان کر گئی تھی۔۔۔
اور وہاں خامشی چھا گئی تھی ایسی جو دل کو حولا کر رکھ دے۔۔۔
"تم جھوٹ بول رہے ہو ایسا کیسے ہو سکتا
 ہے یہ نہیں ہو سکتا میرا بچہ میرا انتظار
 کر رہا تھا میں کیسے اس سے اتنی دور ہو چکی ہوں"
وہ تو اپنے بال کھینچتے بلکل پاگل ہو جانے کے در پر تھی۔۔۔
"عفاف عفاف سمبھالو خود کو تمہیں
 مضبوط بننا ہو گا کیا تمہیں اپنے یارم سے
 نہیں ملنا پلیز اسکے لیے ہی صحیح خود کو سمبھالو۔۔۔۔"

اسکے احساس دلانے پر اسنے آنسو بھری آنکھیں اٹھا کر اسکو دیکھا۔۔۔
"یلدرم جب سب نے میرا ساتھ چھوڑ دیا تو
 تم نے مجھے کیوں بچایا تم بھی مرنے دیتے مجھے"
اسنے دلگرفتگی سے کہا۔۔۔
"ایسے کیسے جانے دیتا ۔۔۔ بہن کہا نہیں مانا
 بھی ہے تمہیں اور ویسے بھی تم نے بھی تو
 میری جان بچائی تھی ایک دفعہ بھول گئی"
اسنے اسکا سر تھپکتے کہا تو وہ سر ہلا گئی۔۔۔۔۔
"مجھے یارم سے ملنا ہے کسی طرح ملا دو مجھے یلدرم"
اسنے درخواست کی تھی۔۔۔
"یہ بہت مشکل ہے عفاف شاید تمہیں اچھا
 نہ لگے سن کر لیکن یارم تم سے نفرت کرنے لگا ہے "
اسکے افسوس سے کہنے پر اسے دھچکا لگا تھا۔۔۔
"یہ کیا بول رہے ہو تم"
اسنے غصے سے کہا۔۔۔
"یہ سچ ہے سردار کی والدہ تم سے نفرت
 کرتی تھیں اور تم سے بدلہ لینے کی خاطر
 انہوں نے یارم کے دل میں اتنی نفرت بھر
 دی ہے تمہارے لیے کہ وہ تمہارا نام سننا بھی پسند نہیں کرتا"۔۔۔۔۔
یلدرم نے افسوس سے کہا۔۔۔
"کوئی اتنا کیسے گر سکتا ہے کہ اپنی ہی
 اولاد کی خوشیوں کا دشمن بن جائے"
اس نے دلگرفتگی سے کہا تو یلدرم بےبس
 نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔
"عفاف اب تمہیں خود کو مضبوط بنانا ہوگا
 کہ تمہیں کوئی توڑ نہ سکے اور تمہیں
 بزنس کی دنیا کی بےتاج ملکہ بننا ہو گا۔
تبھی جا کر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو پاؤ گی"
یلدرم نے عفاف کو ہمت دلاتے کہا جسکی
 آنکھوں میں اب کچھ کر دکھانے کا جنون تھا۔۔۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عفاف نے خود کو پوری طرح بدل لیا ۔۔۔۔
دو سال لگے تھے اسے پرانی عفاف کو مار
 کر ایک نئی پختہ ارادوں والی عفاف سیال
 بننے میں جسکی زندگی میں محبت کی کوئی جگہ نہیں تھی۔۔۔
مسکرائے ہوئے تو شاید اسے عرصہ بیت چکا تھا۔۔۔۔
ان دو سالوں میں اسنے کیا کیا نہیں جھیلا
 تھا اپنی محبت کا قتل اپنے بچے کی نفرت
 اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی اسنے جب وہ
 اپنے بچے سے سکول ملنے گئی تھی اور
 اسنے یہ کہ کر اسے دھتکار دیا تھا کہ
 اسکی کوئی ماں نہیں۔ وہ اپنی ماں کے نام
 تک سے نفرت کرتا ہے جو جھوٹی ہونے کے
 ساتھ ساتھ قاتل بھی ہے۔۔
اسکی ماں اسکے لیے مر چکی ہے۔۔۔
اور یہ وہ آخری الفاظ تھے جو عفاف کو توڑ
 سکتے تھے اسکی سانسیں کھینچ سکتے تھے۔۔۔
اور ایسا ہوا بھی پھر کئی دن نروس بریک
 ڈاؤن کے بعد ہسپتال میں گزارنے کے بعد
 وہ نئے عزم سے واپس آئی تھی اور جی
 جان لگا تھی اپنے کام میں اور آج حال یہ جس
 تھا کہ وہ بزنس کی دنیا کی بے تاج ملکہ تھی۔۔۔۔



 

جس سے ملنے کے لیے لوگ اپوائنٹمنٹ کا انتظار کرتے ۔۔۔
بڑے بڑے بزنس مین اسکی کمپنی سے ڈیل ملنے کو ترستے تھے۔۔۔۔
اب وہ , وہ بن گئی تھی جسے اسنے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔۔۔۔

Stone queen

جسکے پاس دل نہیں تھا لڑکوں کے بقول
 کیونکہ کینیڈا کے نوجوانوں کا کرش تھی وہ۔۔۔
بےشک کبھی وہ منظرِ عام پر نہیں آئی
 تھی۔ مگر وہ stone queen کے نام سے
 لوگوں میں شہرت حاصل کر چکی تھی۔۔۔

لوگوں کا کہنا تھا اسے اپنی خوبصورتی پر
 غرور ہے تبھی وہ کسی سے نہیں ملتی۔۔۔
اور آج وہ اپنا بدلہ پورا کرنے سپیشل
 پاکستان واپس آ رہی تھی جسکے لیے
 اسنے دو سال کی نیندیں قربان کی تھیں۔۔۔۔

Wait for your karma Sardar...

یہ پہلا جملہ تھا جو اسنے پاک کی سر
 زمین پر قدم رکھتے ادا کیا تھا۔۔۔
                  
   *********
جب وہ ایرپورٹ پر اتری تو گہما گہمی آج
 بھی ویسے ہی تھی جیسے پہلے ہوا کرتی
 تھی۔ بس فرق صرف اتنا تھا کہ وہ عفاف
 پہلے والی عفاف جیسی نہیں رہی تھی۔
 بزنس سوٹ میں آنکھوں پر سن گلاسز
 لگائے۔ بال کھلے چھوڑے وہ بار بار لوگوں
 کو اپنی طرف بری طرح متوجہ کر رہی تھی۔
 ہر کوئی ایک دفعہ اسے پلٹ کر ضرور
 دیکھ رہا تھا کہ یہ ایسی کون سی ہستی
 ہے جو اپنے اندر مقناطیسی طاقت رکھتی ہے۔۔۔
عفاف نے دیکھا کہ آج اسے لے جانے کے لیے
 ایئرپورٹ پر کوئی اپنا موجود نہیں تھا۔۔۔
 کیونکہ پہلے جب بھی وہ کہیں سے آتی
 تھی تو سردار اپنی گاڑی لیے پہلے سے اس کا منتظر ہوتا تھا۔۔۔
 ایک پرانی یاد چھم سے اس کے ذہن پر
 لہرائی تھی جب وہ سردار کے لئے بس
ایک ضرورت کا سامان ہوا کرتی تھی۔۔۔۔

*فلیش بیک*                  

اسے یاد تھا جب وہ ایک دن سردار کی
 حرکتوں سے تنگ آ گئی تھی تو اس نے
 ڈرائیور کو یونیورسٹی آنے سے منع کر دیا
 تھا کیونکہ وہ سردار کے ساتھ نہیں جانا
 چاہتی تھی بلکہ کہیں بھاگ جانا چاہتی
 تھی لیکن جیسے ہی وہ یونیورسٹی کی
 اینٹرنس پہ آئی تو دیکھا سردار کی بلیک
 چمچماتی گاڑی وہاں پہلے سے ہی موجود تھی۔۔۔
 حریم بھی سردار کی گاڑی باہر دیکھ کر حیرت کا شکار ہوئی تھی۔۔۔
"حریم مجھے یاد آیا کہ مجھے مسٹر سردار
 کے ساتھ کسی بزنس ڈیل کے لیے جانا ہے
 میں تم سے معافی چاہتی ہوں کہ میں تمہیں پہلے نہ بتا پائی۔۔۔"
عفاف نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا کیونکہ
 اسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ سردار یہاں اچانک آ جائے گا۔۔۔


کوئی بات نہیں عفاف تم نے مجھے پہلے
 کیوں نہیں بتایا چلو پھر میں چلتی ہوں اپنا خیال رکھنا "

یہ کہتے ہی حریم وہاں سے جا چکی تھی...
"مجھے معاف کرنا حریم میں تمہیں سچ
 نہیں بتا سکتی مجھے ڈر ہے کہ اگر میں
 نے تمہیں سچ بتا دیا تو تم مجھ سے نفرت
 کرنے لگو گی اور مجھ میں تمہاری نفرت سہنے کی ہمت نہیں ہے۔۔"

 اس نے دل میں افسردگی سے سوچا اور
 سردار کی گاڑی کی طرف قدم بڑھائے
 جیسے ہی وہ سردار کی گاڑی کے قریب
 پہنچی تو شیشا کھل کر نیچے ہوا تھا
 جہاں سردار بیٹھا اسے واضح نظر آیا۔۔

 تو کیا وہ اسے خود لینے آ گیا تھا مگر
 کیوں وہ کونسا اسکے اتنے قریب تھی۔۔۔
ڈرائیور بھیجنے کی بجائے یہ یہاں خود
 کیوں آگیا عفاف اسے یک ٹک دیکھتے ہوئے
 سوچ رہی تھی جو سردار کے گلا
 کھنکھارنے پر پر ہوش میں آئی تھی۔۔۔

"آکر گاڑی میں بیٹھو"
 سردار نے سرد لہجے میں کہا..
 تو وہ تیزی سے دوسری طرف سے آ کر
 گاڑی میں بیٹھی تھی۔۔ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔۔۔
"آپ کے اردگرد کے لوگ ہمارا رشتہ نوٹ
 کرنے لگے ہیں ہمیں ایک دوسرے سے دور
 رہنے کی احتیاط برتنی چاہیے"
عفاف نے ہچکچاتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔۔

"کونسا رشتہ" 
سردار کے دو لفظ جواب پر وہ حیرت سے
 دنگ رہ گئی تھی ایک دم اس کا چہرہ
 سفید پڑا تھا تو کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ
 ان دونوں کے درمیان کوئی رشتہ تھا
 بےشک ان دونوں کے درمیان کنٹریکٹ میریج تھی
 مگر تھا تو رشتہ ہی نہ بےشک دل کا نہ سہی۔۔۔
 تو کیا وہ اسے اپنی باندھی سمجھتا تھا
 صرف اپنے دل بہلانے کا سامان"
 اس سے زیادہ عفاف کچھ سوچ نہیں سکی
 تھی کیا وہ اس پر کسی بات سے غصہ تھا
 عفاف نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔۔

" ایک تو میں اتنی دور سے اس سے ملنے
 کے لیے آیا اور اس کم عقل لڑکی کے دماغ
 میں یہ بات نہیں آرہی مگر میں خود سے
 بتا کر اپنی انا کو گرانا نہیں چاہتا کیونکہ
 مجھے  سردار شاہ کو اپنی انا سب سے زیادہ عزیز ہے"۔۔۔۔

 

اس نے دل میں کڑھ کر سوچا۔۔۔

" تم مجھ سے اتنی دور کیوں بیٹھی ہو کیا

 تمہیں مجھ سے ڈر لگ رہا ہے "

سردار نے اس کی طرف آنکھیں کرتے پوچھا۔۔۔


" ہاں میں بری طرح ڈری ہوئی ہوں"

 اس نے حقیقت پسندی سے کام لیا تھا

 کیونکہ سردار کے تاثرات اسے ڈرنے پر ہی مجبور کر رہے تھے....


" آں ہاں تو تم مجھ سے سچ بول رہی ہو

 بہت خوب مجھے تمہاری یہ دلیری پسند آئی"


 سردار نے اس کی طرف دیکھتے شریر

 لہجے میں کہا اور اسے جھٹکے سے اپنے

 قریب کیا تھا کہ وہ اس کی گود میں آ گری تھی۔


"اس انسان کے تو جیسے سینے میں دل ہی

 نہیں ہہے اس کی تو چہرے کی مسکراہٹ

 بھی کتنی بناوٹی ہے" اس نے سردار کی

 مسکراہٹ کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا...


" مسٹر سردار میں آپ کی کوئی حکم

 عدولی نہیں کرنا چاہتی مگر ہمارے درمیان

 یہ طے ہوا تھا کہ ہمارے رشتے کا کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا "

"اچھا میں نے ایسے کب کہا تھا مجھے تو یاد نہیں"

 سردار نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھ ونک کر کے کہا۔۔۔

 "کیا تم مجھ سے واقعی اتنا ڈرتی ہو یا

 میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی" اس نے

 عفاف پر جھک کر کہا کہ اس کی سانسیں

 عفاف کا چہرہ جھلسانے لگیں۔۔

" وہ میں۔۔۔ آپ ۔۔۔۔"

 وہ اس کے اس طرح نزدیک آنے پر ہڑبڑا گئی تھی...

 لیکن وہ اس سے پہلے کہ کچھ کہتی

 سردار اس کو گرفت میں لیتے اس پر شدت سے جھکا تھا۔۔۔

 جس سے عفاف کا چہرہ شدت سے سرخ ہوا تھا۔۔۔

 

*حال*

عفاف جھٹکے سے خیالوں سے باہر آئی تھی۔۔۔

" پہلے تم اپنی حرکتوں اور منمانیوں سے

 مجھے چپ کروا لیا کرتے تھے اور میں

 بھی بےوقوفوں کی طرح تمہارے جال میں

 پھنس جاتی تھی مگر اب میں پہلے والی عفاف نہیں رہی۔۔۔

 اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا۔ پہلے

 تم میں دل نہیں تھا مگر اب میرے سینے میں نہیں ہے"

 عفاف نے دور سے اپنے ڈرائیور کو آتے

 دیکھ کر سوچا اور اپنے دل میں سردار سے

 مخاطب ہوئی جس سے وہ بدلہ لینے کا

 پوری طرح ٹھان چکی تھی۔۔۔



 

Post a Comment

Previous Post Next Post